Pakistan – Martial Law & Ahmed Faraz’s Poem

March 12, 2007

 A few decades ago Ahmed Faraz crafted this poem against that time’s dictator in-chief, martial law administrator Gen Zia ul Haq – But as in Pakistan, neither does our present change nor our future shall change – we can still read & relate this poem. I have already posted the poem earlier in my blog – but again.

 in urdu Ahmed Faraz nay yea nazam aaj say koi 25-30 baras pehlay uss waqt kay aamir kay khilaaf likhi thi – lekin pakistan mein hamaari qismat mein jamhooriyat kahan? na hamaaray halaat puraanay hotay hain aur na hamaari nazmain purani hoti hain. aap aaj bhi iss nazam ko parh kar iss daur e haazir kay aamir kay khilaaf nawishta e deewar hi paeyn gay (its written on the wall).

you may require urdu font to properly see this – font can be downloaded from http://www.bbc.co.uk/urdu

میرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے،

کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے،

فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر،

کماں بدست ایستادہ ہیں عسکری اُسکے 

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جسکی تپش،

وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی،

بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں،

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی، 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے،

سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے، 

تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام،

امید لطف پہ ایوان کجلاہ میں ہیں، 

معززین عدالت حلف اٹھانے کو،

مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں،

تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر ہو،

وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں،

بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا،

گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں، 

قلندران وفا کی اساس تو دیکھو،

تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو، 

تو شرط یہ ہے، جو جاں کی امان چاہتے ہو،

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو،

وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا،

بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو، 

یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا،

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے،

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے،

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے،

تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے،

کہ مجھکو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ

 اسے ہے سطوت شمشیر پے گھمنڈ بہت،

اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ،

میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا،

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے،

میرا قلم نہیں کاسئہ کسی گداگر کا،

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے، 

 

میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا،

جو اپنے گھر کی چھت میں شگاف ڈالتا ہے،

میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق،

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے، 

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی،

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے،

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی،

 جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے، 

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی،

میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے،

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا،

جبھی تو لوچ کماں کا، زباں تیر کی ہے 

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے،

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا،

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم،

میرے قلم کا سفر رائگاں نہ جائے گا۔۔۔۔۔ 


Muhaasra – nazam – ahmed faraz

February 1, 2007

میرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے،

کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے،

فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر،

کماں بدست ایستادہ ہیں عسکری اُسکے 

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جسکی تپش،

وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی،

بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں،

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی، 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے،

سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے، 

تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام،

امید لطف پہ ایوان کجلاہ میں ہیں، 

معززین عدالت حلف اٹھانے کو،

مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں،

تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر ہو،

وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں،

بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا،

گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں، 

قلندران وفا کی اساس تو دیکھو،

تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو، 

تو شرط یہ ہے، جو جاں کی امان چاہتے ہو،

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو،

وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا،

بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو، 

یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا،

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے،

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے،

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے،

تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے،

کہ مجھکو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ

 اسے ہے سطوت شمشیر پے گھمنڈ بہت،

اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ،

میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا،

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے،

میرا قلم نہیں کاسئہ کسی گداگر کا،

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے، 

 

میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا،

جو اپنے گھر کی چھت میں شگاف ڈالتا ہے،

میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق،

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے، 

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی،

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے،

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی،

 جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے، 

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی،

میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے،

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا،

جبھی تو لوچ کماں کا، زباں تیر کی ہے 

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے،

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا،

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم،

میرے قلم کا سفر رائگاں نہ جائے گا۔۔۔۔۔